Pages

Friday, June 21, 2013

اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ 50 بیسس پوائنٹس گھٹا کر 9 فیصد کردیا

21 جون 2013ء اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ 50 بیسس پوائنٹس گھٹا کر 9 فیصد کردیا اسٹیٹ بینک نے 24 جون 2013ء سے پالیسی ریٹ 50 بیسس پوائنٹس کم کرکے 9 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ فیصلہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے آج کراچی میں گورنر اسٹیٹ بینک جناب یاسین انور کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کیا۔ زری پالیسی کے فیصلے کے مطابق اسٹیٹ بینک نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ زری پالیسی کے فیصلے کا مکمل متن مندرجہ ذیل ہے: مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد سیاسی فضا واضح ہونے کی وجہ سے احساسات میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی دو مثالیں حکومتی تمسکات کی نیلامی میں بینکوں کا رویہ اور اسٹاک مارکیٹ کا ردعمل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کیے گئے سرویز میں صارفین کے اعتماد، متوقع معاشی حالات اور گرانی کی توقعات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ تاہم بیرون ملک سے رقوم کی آمد کی عدم موجودگی اور بینکاری نظام سے بلند مالیاتی قرضے سخت معاشی چیلنج بنے ہوئے ہیں خصوصاً زری پالیسی کے لیے۔ اسی طرح بجلی کی قلت اور امن و امان کے حالات نمو کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ گذشتہ سال کے دوران گرانی میں تقریباً مسلسل اور وسیع البنیاد کمی کا گرانی، جو زری پالیسی کے فیصلوں میں اہم متغیر ہے، کے منظر نامے پر سازگار اثر پڑا ہے۔ مئی 2013ء میں سال بسال گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) 5.1 فیصد تھی جبکہ قوزی گرانی کا تراشیدہ اوسط (trimmed measure of core inflation ) 6.7 فیصد تھا جو اکتوبر 2009ء کے بعد پست ترین سطحیں ہیں۔ مالی سال 13ء کے لیے اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت 9.5 فیصد کے ہدف سے کم از کم دو فیصدی درجے نیچے رہنے کی توقع ہے۔ تاہم تازہ ترین بجٹ میں حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصدی درجہ اضافہ کرکے اسے 16 سے 17 فیصد کرنے اور بعض اشیا و خدمات کے لیے ٹیکس کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافہ کرنے پر غور کررہی ہے۔ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ یہ اضافہ کب کب اور کتنا ہوگا۔ چنانچہ خطرہ ہے کہ مالی سال 14ء میں اوسط گرانی اس سال کے 8 فیصد کے اعلان کردہ ہدف سے تجاوز کرسکتی ہے۔ تاہم معیشت میں مجموعی طلب معتدل رہنے کی توقع ہے جو گرانی کو کسی قدر کم کرسکتا ہے۔ گرانی کے موجودہ زوال پذیر رجحان کی عکاسی سست حقیقی معاشی سرگرمی کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے خصوصاً نجی سرمایہ کاری کے اخراجات میں۔ جی ڈی پی کی نمو توانائی کی قلت اور امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے پچھلے چند برسوں سے مشکلات کا شکار ہے اور یہ سال بھی مستثنیٰ نہیں۔ مالی سال 13ء کے لیے جی ڈی پی نمو کا عبوری تخمینہ 3.6 فیصد ہے جو سال کے ہدف 4.3 فیصد سے کم ہے۔ اسی طرح نجی معین تشکیل سرمایہ (private fixed capital formation) 1.8 فیصد کم ہوا ہے جو مسلسل پانچویں سال ہونے والی کمی ہے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر اشیا سازی (LSM) کے شعبے میں کچھ حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے، یعنی اپریل 2013ء میں 4.8 فیصد، تاہم اسے ابھرتا ہوا رجحان قرار دینا قبل از وقت ہوگا۔ گرانی کا زوال پذیر رجحان اور جی ڈی پی کی امکان سے کم نمو پالیسی ریٹ میں مزید کمی کے حق میں جاتے ہیں۔ یہ استدلال دو طرفہ ہے۔ اوّل، اسٹیٹ بینک پچھلے چند برسوں کے دوران اپنے زری پالیسی کے فیصلوں میں گرانی کو قدرے بلند ترجیح دیتا رہا ہے۔ چنانچہ ایسا کرتے رہنا زری پالیسی کے موقف میں یکسانیت کی نشاندہی کرے گا۔ دوم، پالیسی ریٹ میں مزید کمی کے بغیر حقیقی شرح سود۔۔ پالیسی ریٹ منہا متوقع گرانی۔۔ گرتی ہوئی گرانی کے باعث بڑھے گی۔ بلند حقیقی شرح سود معیشت میں نجی سرمایہ کاری کے لیے مددگار نہیں ہوتی۔ تاہم جیسا کہ پچھلے زری پالیسی فیصلے میں کہا گیا، توازن ادائیگی کی موجودہ صورتحال اور مالیاتی کھاتوں میں ساختی عدم توازن (structural imbalance) محتاط رویے کا تقاضا کرتے ہیں۔ توازن ادائیگی پر دباؤ کی صورتحال پچھلے دو زری پالیسی فیصلوں میں پالیسی ریٹ کو 9.5 فیصد پر برقرار رکھنے میں اہم عنصر تھی۔ بنیادی دلیل یہ رہی ہے کہ روپے کی شکل میں موجود اثاثوں پر منافع اتنا پُرکشش ہونا چاہیے کہ ڈالر کی سٹہ بازانہ طلب کی حوصلہ شکنی ہو۔ پچھلے زری پالیسی فیصلے کے بعد سے اب تک توازن ادائیگی کی صورتحال کے جائزے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ قابو میں رہنے کی توقع ہے یعنی مالی سال 13ء کے لیے جی ڈی پی کے ایک فیصد کے لگ بھگ، جس سے بیرونی کھاتوں میں اس ذریعے سے بہت کم خطرہ ظاہر ہوتا ہے۔ حقیقی چیلنج بیرون ملک سے آنے والی رقوم کا فقدان ہے۔ جاری کھاتے کے چھوٹے سے خسارے کو پورا کرنے کے بجائے رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران مجموعی خالص 143 ملین ڈالر کی سرمایہ جاتی اور مالی رقوم ملک سے باہر گئی ہیں۔ اس میں آئی ایم ایف کو جاری قسطوں کی ادائیگیاں جمع کرلیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم نہیں ہوا ہے۔ 14 جون 2013ء تک اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر 6.2 ارب ڈالر ہیں۔ تاہم دو تبدیلیاں ایسی ہیں جنہیں اجاگر کرنا ضروری ہے۔ اوّل، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، احساسات میں نمایاں تبدیلی آئی ہے جو نجی رقوم کی آمد پر سازگار اثر مرتب کرسکتی ہے۔ مجموعی معاشی صورتحال کے علاوہ سرمایہ کاری کے فیصلے کرتے وقت سیاسی یقینی کیفیت کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں کچھ عرصے تک معاشی پالیسیاں جاری رہیں گی۔ دوم زوال پذیر گرانی نے روپے کی شکل میں موجود اثاثوں پر نسبتی حقیقی منافع بڑھا دیا ہے۔ اس سے نامیہ منافع میں کچھ کمی کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے جو بیرونی کھاتوں کے مسائل کے باوجود وسیع تر معاشی صورتحال کا احاطہ کرسکتی ہے۔ اس تناظر میں مالیاتی صورتحال پر بہت انحصار ہے۔ مالی سال 13ء کا مالیاتی خسارہ تخمینے کے مطابق جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے جو پچھلے تخمینوں سے خاصا زیادہ ہے۔ انحراف کی وجہ ساختی اور جانی پہچانی ہے۔۔بامعنی ٹیکس اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے پست ٹیکس محاصل اور شعبہ توانائی کے مسائل سے نمٹے بغیر غیرہدفی زر اعانت (subsidies) کا جاری رہنا۔ مالی سال 14ء کے لیے وفاقی حکومت نے جی ڈی پی کے 6.3 فیصد کے عبوری ہدف کا اعلان کیا ہے۔ زری پالیسی کے نقطہ نظر سے مالیاتی پوزیشن پر مالکاری کا دباؤ مسئلے کی وجہ ہے۔ مالی سال 13ء میں تقریباً صفر خالص بیرونی مالکاری کے باعث 8.8 فیصد کے خاصے بڑے خسارے کو پورا کرنے کا بوجھ غیرمتناسب طور پر ملکی وسائل پر پڑا ہے خصوصاً بینکاری نظام پر۔ یکم جولائی تا 7 جون مالی سال 13ء کے دوران اعانت میزانیہ کے لیے بینکاری نظام سے مالیاتی قرض 1230 ارب روپے تھا جس میں اسٹیٹ بینک سے لیے گئے 413 ارب روپے شامل تھے۔ اتنے زیادہ قرضوں کی وجہ سے نظام کی سیالیت اور اس کے نتیجے میں قلیل مدتی شرح سود پر دباؤ رہا ہے اور نجی شعبے کے قرضے کی نمو گھٹ رہی ہے۔ اگر معیشت کو ابھرتے ہوئے مثبت احساسات سے فائدہ اٹھانا ہے اور ملکی و بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینی ہے تو ایک اصلاحات پر مبنی اور معتبر وسط مدتی مالیاتی منصوبے کا نفاذ لازمی ہے۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دی ہے اور پالیسی ریٹ 24 جون 2013ء سے 50 بیسس پوائنٹس کم کرکے 9 فیصد کیا جارہا ہے۔ ***

No comments:

Post a Comment